سیِّدُناذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کا رِقّت انگیز بیان: Sayyedna Zunnoon Misri Ka Riqqat Angez Bayan

سیِّدُناذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کا رِقّت انگیز بیان:


    حضرت سیِّدُناابو حیان علیہ رحمۃ اللہ الحنّان فرماتے ہیں:'میں مصر کے ایک جنگل بیابان میں حضرت سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے اجتماعِ پاک میں حاضر ہوا ۔میں نے حاضرین ِ اجتماع کو شمار کیا تو وہ ستر ہزار (70,000)کے لگ بھگ تھے۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت اور محبین باری تعالیٰ کے متعلق بیان فرما رہے تھے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے اجتماع میں گیارہ افراد مر گئے۔ لوگ چیخ و پکا ر اور گریہ وزاری کرتے ہوئے گر رہے تھے ۔بہت سے لوگ زمین پر بے ہوش پڑے تھے۔سارا دن انہیں اِفاقہ نہ ہوا توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا ایک مرید عرض کرنے لگا:''اے ابوالفیض!آپ نے محبتِ خالق عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے دلوں کو جلا کر رکھ دیا اور غم و اَندُوہ میں ڈال دیا ۔ اب محبتِ مخلوق کے ذکر سے ان کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچایئے۔''یہ سن کرحضرت سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے غم واندوہ میں ڈوبی ہوئی شدید آہ بھری اور آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی قمیص شق ہو کر دوٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ پھر ارشاد فرمانے لگے: ''آہ! افسوس! ان کے دل معلَّق ہوگئے۔ ان کی آنکھیں اَشک بار ہوگئیں۔انہوں نے شب بیداری کا عہد وپیمان اور نیند کا بائیکاٹ کر لیا۔ ان کی رات طویل اور نیند کم ہے۔ ان کاغم والم ختم نہ ہو گا۔ان کے کام دُشوار اور آنسو بہت زیادہ ہیں۔ ان کی آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں اورپلکیں نَم ناک ہیں۔ زمانے نے ان سے دشمنی کی اور رشتے داروں اور پڑوسیوں نے جفا کی۔ محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ نے ان کے دلوں کو جلاکر رکھ دیا۔ ان کی شرابِ طہور گدلے پن سے پاک صاف ہے۔ بے شک ان کے لئے اپنے مقصود تک پہنچنے اورسُرُور و کامیابی پانے کی بشارت ہے۔''
    اے میرے اسلامی بھائیو! محبت ان لوگوں کا کام ہے جنہوں نے اپنے دل میں محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کے لئے ذرہ برابر جگہ نہ چھوڑی۔اور محبت ہر عضو ِ بدن پر اپنی علامات ظاہر کرتی ہے ۔
    (۱)۔۔۔۔۔۔زبان ،محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کے ذکر میں مشغول رہتی ہے۔جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

(16)فَاذْکُرُوۡنِیۡۤ اَذْکُرْکُمْ

ترجمۂ کنزالایمان:تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا۔(۱)(پ2،البقرۃ:152)
    (۲)۔۔۔۔۔۔کان، محبوب ِحقیقی عَزَّوَجَلَّ کے اِن میٹھے بولوں کو سننے کے لئے بے تاب رہتے ہیں:

(17) وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ

ترجمۂ کنزالایمان:اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں۔(۲)
    (۳)۔۔۔۔۔۔آنکھیں،جلوۂ محبوب عَزَّوَجَلَّ دیکھنے کی آرزومندرہتی ہیں۔جیسا کہ قرآنِ پاک فرماتا ہے :(پ2،البقرۃ:186)

(18) وُجُوۡہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ22﴾اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ23﴾

ترجمۂ کنزالایمان:کچھ منہ اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے۔(۳)(پ29،القیامۃ:22۔23)
    (۴)۔۔۔۔۔۔بدن ، محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں کھڑے ہو کریہ وظیفہ پڑھتے رہتے ہیں:

(19) اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ ؕ﴿4﴾

ترجمۂ کنزالایمان:ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔(پ1،الفاتحۃ:5)
    (۵)۔۔۔۔۔۔دل، یادِ محبوب عَزَّوَجَلَّ میں محبت کے رابطے سے جَڑے رہتے ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

(20)  یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ

ترجمۂ کنزالایمان:کہ وہ اللہ کے پیارے اوراللہ ان کا پیارا۔(پ6،المائدۃ :54)
    (۶)۔۔۔۔۔۔راز ،جلوۂ محبوب عَزَّوَجَلَّ کے مشاہدہ میں کھوئے رہتے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:

(21) وَ شَاہِدٍ وَّ مَشْہُوۡدٍ ﴿ؕ3﴾

ترجمۂ کنز الایمان:اور(قسم) اس دن کی جو گواہ ہے اور اس دن کی جس ميں حاضرہوتے ہيں۔(پ30،البروج :3)
    (۷)۔۔۔۔۔۔روحیں ،راحت اور پھولوں کے ذکر سے سکون حاصل کرتی ہیں۔چنانچہ،اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فر ماتا ہے:

(22) فَرَوْحٌ وَّ رَیۡحَانٌ ۬ۙ

ترجمۂ کنزالایمان:تو راحت ہے اور پھول۔(4)(پ27،الواقعۃ:89)
    پس عارف کوبارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں حاضری سے غفلت نہیں ہوتی؟اورنہ ہی عابد اپنے معبودِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ سے غافل ہوتا ہے۔

1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ''ذکر تین طرح کا ہوتا ہے: (۱)۔۔۔۔۔۔ لسانی (۲)۔۔۔۔۔۔ قلبی(۳)۔۔۔۔۔۔ بالجوارح۔ ذکرِ لسانی تسبیح، تقدیس ،ثناء وغیرہ بیان کرنا ہے، خطبہ، توبہ، استغفار، دعا وغیرہ اس میں داخل ہیں۔ ذکرِ قلبی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا یاد کرنا، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کے دلائلِ قدرت میں غور کرنا۔ علماء کا استنباطِ مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہیں۔ ذکر بالجوارح یہ ہے کہ اعضاء طاعتِ الہٰی میں مشغول ہوں جیسے حج کے لیے سفر کرنا، یہ ذکر بالجوارح میں داخل ہے۔ نماز تینوں قسم کے ذکر پر مشتمل ہے۔ تسبیح و تکبیر، ثناء و قراء ت تو ذکر ِ لسانی ہے اور خشوع و خضوع، اخلاص ذکر ِقلبی اور قیام، رکوع و سجود وغیرہ ذکر بالجوارح ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :''تم طاعت بجالا کر مجھے یاد کرو میں تمہیں اپنی امداد کے ساتھ یاد کروں گا۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ'' اگر بندہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو ایسے ہی یاد فرماتا ہوں اور اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں۔قرآن و حدیث میں ذکر کے بہت فضائل وارد ہیں اور یہ ہر طرح کے ذکر کو شامل ہیں۔ ذکر بالجہر کو بھی اور بالاخفاء کو بھی۔''
2 ۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: '' اس میں طالبانِ حق کی طلب ِ مولیٰ کا بیان ہے ،جنہوں نے عشقِ الہٰی پر اپنے حوائج کو قربان کردیا۔ وہ اسی کے طلبگار ہیں، انہیں قرب ووصال کے مژدہ سے شاد کام فرمایا۔ شانِ نزول: ایک جماعتِ صحابہ نے جذبۂ عشقِ الٰہی میں سید عالم صلَّی اللہ علیہ وآ لہ وسلَّم سے دریافت کیا کہ ہمارا رب کہاں ہے؟ اس پر نویدِ قرب سے سرفراز کرکے بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ مکان سے پاک ہے۔ جو چیز کسی سے مکانی قرب رکھتی ہے وہ اس کے دور والے سے ضرور بُعد رکھتی ہے اوراللہ تعالیٰ سب بندوں سے قریب ہے۔ مکانی کی یہ شان نہیں۔ منازلِ قرب میں رسائی بندہ کو اپنی غفلت دور کرنے سے میسر آتی ہے۔ دوست نزدیک تراز من بمن ست ۔ ویں عجب ترکہ من ازوے دورم۔''
3۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ''انہیں دیدار الہٰی کی نعمت سے سرفراز فرمایا جائے گا۔ مسئلہ: اس آیت سے ثابت ہوا کہ آخرت میں مؤمنین کو دیدارِ الہٰی میسّر آئے گا ۔یہی اہلِ سنت کا عقیدہ و قرآن و حدیث و اجماع کے دلائلِ کثیرہ اس پر قائم ہیں اور یہ دیدار بے کیف اور بے جہت ہوگا۔''
4۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ''ابوالعالیہ نے کہا کہ ''مقرّبین سے جو کوئی دُنیا سے مفارقت کرتا ہے اس کے پاس جنّت کے پُھولو ں کی ڈالی لائی جاتی ہے، اس کی خوشبو لیتا ہے تب رُوح قبض ہوتی ہے۔''


Post a Comment

0 Comments