میں تیری محبت میں کمزور نہیں: Main Teri Mohabbat Me Kamzoor Nahi

میں تیری محبت میں کمزور نہیں:


    حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن فضل رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،جب حضرت سیِّدُنا یحیٰ بن معاذرازی علیہ رحمۃاللہ الباقی کاانتقال ہوا اور آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کوخواب میں دیکھ کر پوچھا گیا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیامعاملہ فرمایا؟'' جواب دیا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے بخش دیا ۔''پوچھاگیا:''کس سبب سے؟''فرمایا:میں اپنی دعا میں عرض کرتا تھا، ''یااللہ عَزَّوَجَلَّ! اگرچہ میں تیری عبادت میں کمزور ہوں مگر تیری محبت میں کمزور نہیں۔''

روحانی بدن اورآسمانی عقلیں :


    حضرت سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:''میں نے یمن کے ایک بزرگ کے متعلق سناکہ وہ محبت کرنے والوں ميں بلند مرتبہ اور کوشش کرنے والوں پر فوقیت رکھتے ہیں اوروہ علم و حکمت کاسر چشمہ ہیں۔ چنانچہ، میں حج کے ارادے سے
نکلا اور جب ارکانِ حج ادا کر لئے تو ان کی طرف چل پڑا تا کہ ان کی گفتگو سنوں اور ان کے بیان سے نفع اٹھاؤں۔ہم کئی لوگ یہی سوچ لے کر گئے۔ ہمارے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا جس میں نیک لوگو ں کی نشانیاں اور محبت کرنے والوں کی علامتیں پائی جاتی تھیں۔ وہ بزرگ ہمیں ملے ۔ہم ان کے پاس بیٹھ گئے۔ اسی نوجوان نے سلام و کلام سے ابتداء کی۔ بزرگ نے اس سے مصافحہ کیا اوراس کی طرف متوجہ ہوئے ۔نوجوان نے عرض کی :''یاسیدی !اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو بیمار دلوں کا طبیب بنایاہے، مجھے ایک ایسی بیماری ہے کہ طبیب اس کے علاج سے عاجز آچکے ہیں۔اگر آپ مجھ پر اپنا لطف و کرم فرمائیں تو میرا علاج فرما دیجئے۔'' بزرگ نے پوچھا:''جو معاملہ تجھ پر ظاہر ہوا ہے اس کے مطابق پوچھ ۔'' اس نے عرض کی:''محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی علامت کیا ہے ؟'' بزرگ نے جواب دیا:'' اس کی علامت یہ ہے کہ تو اپنے آپ کو بیمار جان، کیا تُو نے دیکھا نہیں کہ بیمار مرض کے خوف سے کھانا نہیں کھا تا؟''
    یہ سنتے ہی نوجوان نے بآوازِبلند چیخ ماری۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ اس کی روح پرواز کر گئی ہے۔جب اسے اِفاقہ ہوا تو پھر عرض کی:''اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ پررحم فرمائے!محبت کرنے والوں کی علامت کیا ہے؟'' فرمایا: ''محبت کرنے والوں کا درجہ بہت بلند ہے۔'' نوجوان نے پھر عرض کی :''مجھے ان کے اوصاف بتائیے؟''تو انہوں نے فرمایا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرنے والے اس کے نورِ جلال کو دیکھتے ہیں توا ن کے جسم روحانی اور عقلیں اسمانی ہو جاتی ہیں جو ملائکہ کی صفوں کے درمیان واضح طور پر چلتی پھرتی ہیں اور تمام اُمورِ آخرت کایقینی طورپر مشاہدہ کرتی ہیں۔ پس وہ حسب ِ استطاعت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کو جنت کی طمع ہوتی ہے نہ دوزخ کا خوف ۔'' اس پر اس نوجوان نے ایک آہِ سردْدِل پُردرد سے کھینچی اور اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی ۔وہ بزرگ رو رو کر اُسے بوسے دینے لگے۔ پھر فرمانے لگے:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! یہ خائفین کی موت ہے اوریہ محبین کا مقام ہے۔''
    حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا داؤد علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرف وحی فرمائی: ''اے داؤد ! مجھ سے محبت کرواور میرے محبین سے بھی محبت کرو اور میرے بندوں کے دلوں میں میری محبت ڈالو۔'' انہوں نے عرض کی :''یااللہ عَزَّوَجَلَّ !میں تجھ سے محبت کرتاہوں اور تیرے محبین سے بھی محبت کرتاہوں لیکن تیرے بندوں کے دلوں میں تیری محبت کیسے داخل کروں ؟'' توارشاد فرمایا:''ان کو میری نعمتیں اورعطائیں یا د دلاؤکیونکہ وہ مجھے احسان کرنے والاہی جانتے ہیں۔''

    (احیاء علوم الدین،کتاب الخوف والرجاء ،بیان فضیلۃ الرجاء والترغیب فیہ ،ج۴،ص۱۷۸)

    منقول ہے، ''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا ابراہیم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرف وحی فرمائی:''تو میرا خلیل ہے اور میں تیرا خلیل ہوں۔ لہٰذا اس بات سے بچنا کہ میں تیرے دل کو اپنے غیر میں مشغو ل پاؤں، اگر ایسا ہوا تو میں تیری محبت ختم کر دوں گا۔ کیونکہ میں اپنی محبت کے لئے ایسے بندے کا انتخاب کرتاہوں کہ اگر میں اسے آگ میں بھی جلاؤں توبھی اس کا دل میرے علاوہ کسی میں مشغول نہ ہو۔جب وہ ایسا ہو تو میں اپنی محبت اس کے دل میں ڈال دیتا ہوں اوراس پر مسلسل اپنالطف و کرم فرماتا
ہوں پھر اسے اپناقرب اور اپنی محبت عطا کرتاہوں۔تو میرے نزدیک کونسی نعمت اس کے برابرہو سکتی ہے اورمیرے نزدیک کون سا شرف ومرتبہ اس سے بڑھ کر ہو سکتا ہے۔ میری عزّت و جلال کی قسم! اپنی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے میں اپنے محب کے سینے کو ضرور شفا بخشوں گا اوریہ اس لئے کہ میں اپنے محب سے محبت کرتاہوں۔'' (حلیۃ الاولیاء،الحارث بن اسد المحاسبی، الحدیث۱۴۶۴۸، ج۱0،ص۸۶،بتغیرٍ)

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت اپنی قدیم عنایت کے ساتھ بندے پر سبقت لے جاتی ہے توپھر بندہ سیدھے راستے پر کیوں نہیں چلتا؟'' (حکم ہوتاہے ) اے جبرائیل علیہ السلام ! فلاں کو سلا دو اور فلاں کو اٹھا دو۔تو محب اپنے محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کے حضور کھڑا ہو جاتا ہے، اس کی عبادت کو لازم پکڑ لیتا ہے اور اس کی محبت میں حیران وسرگرداں رہتاہے تو اس پر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور عتاب اثر نہیں کرتا۔

Post a Comment

0 Comments