بھیڑئیے بکریوں کے محافظ بن گئے: Bhidiye Bakriyoun Ke Muhafiz Ban Gaye

بھیڑئیے بکریوں کے محافظ بن گئے:


    حضرت سیِّدُنا ربیع بن خیثم علیہ رحمۃاللہ الاعظم کے متعلق منقول ہے کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ہمیشہ شب بیداری کرتے تھے۔ایک دن آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بیٹی نے عرض کی :''اے اباجان !اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مخلوق میں سب سے افضل کون ہے؟''تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''ہمارے آقا ومولیٰ حضرت سیِّدُنا محمد رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ۔'' یہ سن کر وہ کہنے لگی:'' حرمتِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا واسطہ! آج رات آپ سو جائیں۔'' تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بارگاہ ِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی: ''اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ! تو جانتاہے کہ مجھے شب بیداری نیند سے زیادہ پیاری ہے لیکن میری بیٹی نے مجھے حضور نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا واسطہ دیا ہے اس بناء پرآج مجھے سونا پڑے گا۔''چنانچہ، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ محو آرام ہوگئے۔ خواب میں دیکھا کہ بصرہ میں ایک میمونہ نامی خادمہ ہے جو جنت میں ان کی بیوی ہوگی۔ صبح ہوئی تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بصرہ روانہ ہو گئے۔ جب اہلِ
بصرہ نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی آمد کا شہرہ سنا تو شانداراستقبال کیا۔جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں سے پوچھا: ''کیا یہاں کوئی میمونہ نامی عورت ہے؟''لوگو ں نے عرض کی:''آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اس دیوانی میمونہ کا پوچھتے ہیں جو دن میں بکریاں چراتی ہے اور اس کی مزدوری سے کھجور خریدتی ہے۔ اسے فقراء میں صدقہ کر دیتی ہے۔ رات کوچھت پرچڑھ جاتی ہے اور پھرکثرتِ گریہ و زاری اور چیخ و پکار سے کسی کو سونے نہیں دیتی۔''آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا: ''وہ اپنی آہ وزاری میں کیا کہتی ہے؟'' تو انہوں نے جواب دیا:وہ کہتی ہے:

عَجَباً لِلْمُحِبِّ کَیْفَ یَنَامُ
کُلُّ نَوْمٍ عَلَی الْمُحِبِّ حَرَامُ

  ترجمہ: تعجب ہے محبت کرنے والے پر! وہ کیسے سو جاتاہے۔ حالانکہ محب پر تو نیند حرا م ہوجاتی ہے۔
    یہ سن کرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! یہ دیوانوں کا کلام نہیں، مجھے اس کے پاس لے چلو۔''لوگوں نے عرض کی :''وہ جنگل میں بکریاں چرارہی ہے۔''آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اس کی طرف تشریف لے گئے تو دیکھا کہ اس نے ایک محراب بنا رکھا ہے اور اس میں نماز پڑھ رہی ہے۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے دیکھاکہ بکریاں چررہی ہیں اور بھیڑیئے ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ یہ منظر دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ'' جب وہ نماز سے فارغ ہوئی تومیں نے کہا: ''اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ ، اے میمونہ !''اس نے جواب دیا: ''وَعَلَیْکَ السَّلَام، اے ربیع!'' میں نے پوچھا: ''تم میرا نام کیسے جانتی ہو؟''اس نے کہا:''سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے اس ذات نے آپ کا نام بتایا ہے جس نے گذشتہ رات خواب میں آپ کو خبر دی کہ میں آپ کی زوجہ ہوں۔ لیکن یہ وعدہ کی جگہ نہیں بلکہ ہمارے درمیان وعدہ کی جگہ جنت ہے۔'' میں نے پوچھا: ''یہ بھیڑیوں اوربکریوں کے اکٹھے رہنے کا معاملہ کیسا ہے؟''اس نے جواب دیا:''جب میرے دل میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت پیدا ہوئی اور میں نے دل سے دنیا کی محبت نکال دی تو اس ذات نے بھیڑیوں اوربکریوں میں صلح کروا دی۔'' پھر اس نے کہا: ''اے ربیع!مجھے میرے مالکِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کا کلام تو سنایئے، مجھے اس کے سننے کا بہت شوق ہے ۔'' تومیں نے تلاوتِ قرآن شروع کردی:

(12) یٰۤاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ ۙ﴿1﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿2﴾

ترجمۂ  کنزالایمان:اے جھرمٹ مارنے والے!رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے۔(۱) (پ29، مزمل:1۔2)

    وہ سنتی رہی اوررو رو کر تڑپتی رہی یہاں تک کہ جب میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ عا لیشان پر پہنچا:

(13) اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّ جَحِیۡمًا ﴿ۙ12﴾وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿13﴾٭

ترجمہ کنزالایمان:بے شک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ اور گلے میں پھنستا کھانااور درد ناک عذاب۔(پ29،مزمل:12تا13)
    تو اس نے زور دار چیخ ماری اور نیچے گر گئی اوراس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ میں اس کی اس حالت پر پریشان تھا کہ اچانک خواتین کا ایک قافلہ آیا۔ انہوں نے کہا:''ہم اس کے غسل وکفن کااہتمام کریں گی۔''میں نے پوچھا: ''تمہیں اس کے انتقال کی اطلاع کس نے دی؟''انہوں نے بتایا:''ہم اس کی دُعا سنا کرتی تھیں کہ ''یااللہ عَزَّوَجَلَّ !مجھے حضرت سیِّدُناربیع علیہ رحمۃاللہ السمیع کے سامنے موت دینا۔''جب ہم نے سناکہ آپ اس کے پاس تشریف لائے ہیں تو ہم نے جان لیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کی دُعا قبول فرما لی ہے۔''
    اے میرے اسلامی بھائیو! جب اللہ عَزَّوَجَلَّ بندوں کے دل کی زمین سنوار تاہے تواسے خشیَّت کے ہَل سے اُلَٹتا پَلَٹتا ہے اور اس میں محبت کا بیج بو کر آنسوؤں کے پانی سے سیراب کرتاہے تو جو فصل اُگتی ہے،وہ یہ ہے :

(14) یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ

ترجمۂ کنزالایمان:کہ وہ اللہ کے پیارے اوراللہ ان کا پیارا۔(پ6،المائدۃ :54)
    اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے دریا میں تیرتے ہیں۔ اس کے بابِ کرم کو لازم پکڑ لیتے ہیں۔اس کی بارگاہ میں کھڑے رہتے ہیں۔ اس کے احکام کی بجا آوری پر ہمیشگی اختیار کرتے ہیں اوراس سے والہانہ پیار کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ راتوں کو آرام نہیں کرتے بلکہ بیدار رہتے ہیں۔ پس جب وہ اس کی محبت میں دنیا سے جاتے ہیں تو انہیں کوئی ملامت نہیں ہوتی۔
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: '' یعنی اپنے کپڑوں سے لپٹنے والے۔ اس کے شانِ نزول میں کئی قول ہیں۔ بعض مفسّرین نے کہا کہ'' ابتداءِ زمانۂ وحی میں سیّدِ عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے۔ ایسی حالت میں آپ کو حضرت جبریل نے یٰاَ یُّہَا الْمُزَّمِّلُ کہہ کر ندا کی۔ ایک قول یہ ہے کہ سیّدِ عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں آپ کو ندا کی گئی یٰاَ یُّہَا الْمُزَّمِّلُ ۔ بہرحال یہ ندا بتاتی ہے کہ محبوب کی ہر ادا پیاری ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ رداءِ نبوت و چادرِ ر سالت کے حامل و لائق۔''

Post a Comment

0 Comments