علم مال سے افضل ہے Ilm Mal Se Afzal Hai

علم مال سے افضل ہے



علم اور دولت۔دو ایسی حقیقتیں ہیں جو ہر انسان کی زندگی کے لیے ضروری محسوس ہوتی ہیں اور ہر دور کا انسان اس بات کا فیصلہ کرنے میں نا کام رہا ہے کہ ان دونوں میں سب سے زیادہ اہم کون سی ہے؟لیکن اگر ہم غور وفکرکریں اور گہرائی سے جائزہ لیں تو ہم علم کو ہی اہمیت اور ترجیح دینے کے لیے مجبور ہو جائیں گے اور ایسا کرکے ہم اپنی دانائی اور دانش مندی کا بہترین ثبوت بھی پیش کریں گے۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب حضرت محمدﷺکی تعلمیات کے مطابق علم کے گرویدہ اور دیوانے بن کر عرب کے بدو اس کے حصول کے لیے جد جہد کرنے لگے تو اللہ نے ان کو ایسی بلندی،سر فرازی اور کا مرانی عطا کی کہ انھوں نے اپنے علم کی طاقت سے ساری دنیا کو زیر کرلیا۔اور دنیا کی ساری دولت ان کے قدموںمیں اگری۔پھر جب وہ دھیرے دھیرے علم سے دور اور دولت کے نشے میں چور ہو کر عیش وعشرت میں مبتلا ہوگئے تو اللہ نے ان کو ایسی پستی و ذلت عطا کی کہ آج تک مسلمان قوم اس سے نکلنے کے قابل نہ ہوسکی۔اہل یورپ نے ان کی ترقی کے یافتہ کے راز کو جان کر وہی علم کی راہ اختیار کی جو کبھی مسلمانوں کا شیوہ تھا اور اب وہ ایک  ترقی یافتہ قوم بن گئے۔عیسائی قوم نے مسلمانوں کے علم کے وسیع ذخیرہ سے استفادہ کیا اور اسے آگے بڑھاتے چلے گئے یہاں تک کہ ساری ایجادات وکامیابیوں کا سہرہ انہی 
کے سر بندھ گیا اور محض اسی کے ذریعہ وہ دولت بھی حاصل کرتے چلے گئے اور دنیا پر اقتداراور غلبہ بھی۔اہل اسلام کی غفلت وپسماندگی اور اہل مغرب کا عروج اور ترقی یہ بتاتے ہیں کہ اگر کس قوم و ملت کو ترقی،قیادت اور غلبہ واقتدار کی راہ پر چلنا ہے تو وہ دولت کے حصول کے بجائے علم کے حصول کی فکر کرے۔ہمارے مذہب اسلام نے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیا ہے اور حضرت محمدﷺنے مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی بلکہ اس وقت کے معاشرہ میں علم کے پھیلائو کے لیے زبردست اقدامات کیے۔ایک طرف آپ نے صفہ قائم کیا دوسری طرف جنگ بدر کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے یہ شرط لگائی کہ وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔لیکن امت مسلمہ علم وترقی کے اس دور میں غفلت کی نیند میں سوئی ہوئی ہے اورعلم کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔اور اگر یہ سچائی ہر مسلمان پر ظاہر ہوجائے کہ اسے دولت نہیں علم کامیابی عطا کرتا ہے تو ایک بار پھر وہی مسلمان قوم کاپرانا وقار،شان و شوکت،رعب ود بدبہ اور غلبہ واقتدار واپس آجائے گا جس سے ساری دنیا کسی زمانے میں مستفید ہوتی رہی ہے۔علم کو اہمیت دینے والے لوگ رہتی دنیا تک اپنے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ انھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔دولت پانی کے ایک بلبلہ یا چھائوں کے مانند ہے جو کبھی ہے تو کبھی نہیں ہے۔دولت کبھی کسی انسان کا ساتھ ہمیشہ کے لیے نہیںنبھاتی۔وہ توآتی جاتی رہتی ہے۔اس کے بر عکس علم انسان کا ایک مستقبل ساتھی ہے۔دولت بے وفا ہوتی ہے توعلم سب سے زیادہ وفادار۔علم ایک ایسا نور ہے جو انسان کو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی تقویت بھی عطا کرتا ہے۔علم انسان کے اندر صحیح اور غلط کو پہچاننے کی تمیز پیدا کرتا ہے۔وہ نو جوان جو اپنے اندر علم حاصل کرنے اور زندگی میں کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں،کبھی برائیوں کو دیکھ کرنہیں ڈگمگاتے اور ان کے قدم علم کے دریا کو پار کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔آئیے ہم عہد کریں کہ گھر گھر ،گلی گلی اور گائوں گائوں علم کی شمع روشن کرنے کی جد جہد کریں گے۔خود بھی علم حاصل کریں گے اور دوسروں کو بھی اپنے علم سے فائدہ پہنچا ئیں گے۔
  

Post a Comment

0 Comments