علم کی عظمت وفضیلت
اللہ تعالیٰ ایمان والوںکے اوران کے جن کو علم دیا گیا،درجے بلند کرے گااور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے(قرآن مجید،اٹھائیسویں پارہ،سورہ مجادلہ،رکوع ۲ ترجمہ:کنزالایمان)علم بڑی افضل شے ہے،اس کا مرتبہ ومقام دیگر تمام دنیاوی مراتب ومقامات سے بلند ہے۔عِلم کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ بادشاہ اور وزیر بھی عالم سے کم تر ہیں۔علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے پیارے رسولﷺپر سب سے پہلی وحی کا نزول علم کے بارے میں ہوا۔علم وہ دیا ہے جس سے جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں،سچی اور سیدھی راہوں کے در کھلتے ہیں،تو ہمات کا خاتم ہوتا ہے اور انسان خود آگہی سے روشناس ہوتا ہے۔یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ علم سے انسان انسان ہے ورنہ حیوانوں سے بھی بدتر ہے۔تفسیر حسینی کے صفحہ نمبر ۳۸۶ پر مرقوم ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ایسا مومن شخص جو علم رکھتا ہے ،اس مومن شخص سے جو کہ بے علم ہے،خواہ وہ بادشاہ ہی کیوں نہ ہو،اس قدر درجہ رکھتا ہے کہ ایک جگہ سے تیز رفتاراسپ(گھوڑا)ساٹھ سال تک دوڑنے سے دوسری جگہ پہنچتاسے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے؛وَعَلَّمْنَاہُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمََا۔ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کو علم اور علم فراست عطا فرمایا۔اور اسی علم کی بدولت ان کو یہ شرف ملا کہ آپ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کا استاد بتایا گیا۔ذر اور پیچھے لوٹ جائے۔حضرت یوسف علیہ السلام کو علم الخواب سے بہرہ و ر کیا گیا تھا۔وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ اْلاَ حَادِیْثِ۔اللہ تعالیٰ نے مجھے خوابوں کا علم سکھیلا اورپھر اس کی برکت سے رب العزت نے حضرت یوسف کو مصر کا ملک
ودیعت فرمایا۔تاریخ کا آئینہ دیکھئے۔حضرت دائود علیہ السلام نظر پڑیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے علم صنعت سے مالا مال کیا تھا۔وَعَلَّمْنَاہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسِِ لَّکُمْ۔ہم نے ان کو زرہ بنانے کا علم سکھایا اور اس علم کی برکت سے حضرت دائود علیہ السلام کو بادشاہت وریاست عطا کی گئی۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو رب العزت نے جانورں کی بولیوں کا علم مرحمت فرمایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔وَعَلَّمْنَاہُ مَنْطِقَ الطَّیْرِ۔ہم نے ان کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا فرمایا۔اسی علم کی برکت تھی کہ حضر ت سلیمان علیہ السلام کو بلقیس جیسی صاحب مال وزر بیوی ملی اور سارے جہان کی بادشاہی کے لیے آپ کو منتخب کیا گیا۔علم کی بدولت ہی کا ئنات ارضی کی ہر مخلوق کو حضرت سلیمان کے تابع کردیا گیا تھا۔علم کی برکت سے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریم ؓکو لوگوں کے عائدکردہ بہتان سے بری کیا گیا۔قرآن مجید میں ارشاد ہے؛ترجمہ کنزالایمان؛اللہ تعالیٰ نے ان کو کتاب ،حکمت،تورات اور انجیل سکھائی۔اور ہمارے پیارے رسولﷺکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسرارورموز کا علم اور ہر شئی کا علم عطا فرمایا۔جو خداوند کے اس ارشاد سے ظاہر ہے۔(وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمْ)اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے رسولﷺپر خاص فضل وکرم کیا اور علم کی برکت سے آپﷺکو خلافت کبرٰ ی کا منصب بخشا اور شفاعت عظمٰی کاامین قراردیا۔علم کی برکت کے بارے میں تحریر تفسیر عزیزی میں مرقوم ہے ۔اور تفسیر عزیزی کے صفحہ نمبر۱۷۳پر مزید رقم شدہ تحریر کا مفہوم درج ذیل ہے۔علم کی برکت کے بارے میں جاننے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ علم ایک وسیلہ ہے جس کے طفیل اللہ تعالیٰ جس انسان کو چاہتاہے مراتب عالی سے نوازتاہے۔گویا تمام تر بلند مقامات پر سرفراز ہونا علم کی برکت سے ہے۔انسان کو خدا نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ اس کو تمام مخلوقات میںسے افضل واعلیٰ اور برتر پیدا کیا۔ جس کی وجہ سے اس کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے،چلیئے چھوڑیئے جانے دیجئے کہ انسان تو اشرف المخلوقات ٹھرااس کو تو علم کی بدولت مراتب عالیہ سے نوازاہی جائے گا،لیکن علم تو اس بادل کی مثل ہے جو پھولوں پر نہیں برستا بلکہ کانٹے بھی اس کی مہربانیوں کا ہدف بنتے ہیں،انسان کے علاوہ جس کسی کو بھی علم سکھایا جائے وہ علم کی برکت سے بہرو ور ہوگا،مثلا اس کائنات ارضی وسماوی میں سب سے نجس،پلید اور اخس ترین مخلوق جس کو تصور کیا جاتا ہے وہ کتا ہے؛جی ہاں کتے کو اس کائنات ارضی وسماوی میں سب سے نجس،پلید اور اخس مخلوق ہونے کا قبیح ترین اعزاز حاصل ہے،لیکن کُتے کا یہ قبیح ترین اعزاز اس سے دست بردار ہو سکتا ہے،اس طرح کہ کتے علم سیکھ جائیں،جی ہاں اگر کتا علم سیکھ جائے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اس کو امر شکار پر معمور کردیا جائے اور وہ اس میں کا میابی حاصل کرے تو اس کا کیا ہوا شکار حلال ہوگا،حالانکہ جس شے سے کتا چھو جائے اس کو پلید ی کا اعزاز بخش دیتا ہے لیکن علم کی بدولت کیا ہوا شکار حلقئہ حلالیت میں شمار ہوتا ہے،واللہ کیا شان اور برکت ہے علم کی۔در مختار کے صفحہ نمبر۵۱ پرحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد گرامی نقل ہے کہ؛فَفُزْ بِعِلْمِِ وَ لاَ تَجْھَلْ بِھ اَبَداََ۔اَلنَّاسُ مَوْتیٰ وَاَھْلُ الْعِلْمِ اَحْیَآ ئُ۔ترجمہ ؛پس تو علم سے فیض یاب ہوا اور جاہل نہ رہ۔سب لوگ مردہ ہیں اور علم والے زندہ ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہی ایک شعراز حد مشہور ہے
رَضِیْنَا قِسْمَۃَ الْجَبَّارِ رِفِیْنَا
لَنَا عِلْم ُ وَلِلْجُھَّالِ مَالُ
ترجمہ؛ہم جبار خدا کی تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم دیا اور جاہلوں کو مال۔
قارئین گرامی!حضرت علی کے قول سے یہ جا نگسل حقیقت سامنے آئی ہے کہ جو لوگ بے علم ہیں ،علم سے بے بہرہ ہیں،وہ لوگ مردہ ہیں((they are deadاور جن لوگوں نے تحصیل علم کیا وہ لوگ زندہ ہیںگویا علم کو علامت زندگی قرار دیا جارہا ہے۔واللہ کیا شان ہے علم کی۔اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِ یْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ۔ترجمہ ،کنزالایمان؛کہہ دو کیاعلم والے اوربے علم یکساں ہوسکتے ہیں اس لیے کہ عالم دین اپنے رب کریم کی ذات وصفات ،اسما واحکام سے آشنا
ہوتا ہے اور جاہل پوری پہچان سے قاصر ہوتا ہے،نہ اسے رب کی کامل پہچان اور نہ مسائل سے شناسائی ہوتی ہے،اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ عالم کی برابری کرسکے۔خداوند تعالیٰ کے ارشاد کے علاوہ مشکوۃٰ شریف میں حضورﷺکا ارشاد مرقوم ہے طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِ یْضَۃُ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمِِ ترجمہ؛تحصیل علم ہر مسلمان پر فرض ہے،ہر مسلمان سے مراد مردا اور عورت ہیں،حضورﷺکے اس ارشاد سے علم کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اہل ایمان کے لیے تحصیل علم فرض قراردی گئی ہے ،افسوس صد افسوس کہ آج کے اس پر فتن دور میں ہماری عقلوں پر ایسے پتھر پڑگئے ہیں کہ ہم دینی علوم کی طرف ذرا توجہ بھی نہیں دیتے،مدرسے خالی ہیں ،مسجدیں ویران ہیں اور علامہ اقبال کے اس مصرع کی ترجمان ہیں،
؎ مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
س کے بر عکس دنیاوی علم کے لیے ہم بائوے ہوئے پھرتے ہیں،کسی کویہ شکایت کہ تعلیم کا معیار کم ہوتا جارہا ہے،کسی کو یہ شکوہ کہ ہمارے بچے کو نرسری میں داخلہ نہیں ملتا،غرض کہ دنیاوی تعلیم کے پھیچے بھاگتے پھرتے ہیں اور کوئی یہ توجہ نہیں دیتا کہ اس کے بچے دینی علوم سے بھی بہرو ور ہوں،در اصل دنیاوی تعلیم کو لوگ معاشی کا ضامن تصور کرتے ہیں لیکن لوگوں کو یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ ایسا علم جو بزنس کے طور پر اپنانے کے لیے حاصل کیا جائے،قطعا اس سے فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ تو رسوا ہونے والی بات ہے،تفسیر عزیزی کے صفحہ نمبر۱۷۱،۱۷۲ پر درج ذیل مفہوم پر مشتمل حضرت علی مشکل کشا کا ارشاد درج ہے کہ سات وجوہات کی بنا پر علم مال پر فضیلت رکھتا ہے،
(۱)مال وزر فرعون ،نمرود،ہامان،شداد اور قارون جیسے جاہل لوگوں سے نسبت رکھتا ہے کہ جنہوں نے خداوند تعالیٰ کی جانب سے بے شمار مال پایا اور اسی کے نافرمان بن گئے،لیکن علم کو اعزاز حاصل ہے کہ انبیاء کرام کی میراث ہے کہ جنہوں نے انسان کو اس کے اصلی خالق اور معبود سے روشناس کرایا ،بالیقین سعادت مند ہیں وہ لوگ ،قابل رشک ہیں وہ لوگ کہ جو انبیاء کرام کی میراث حاصل کرتے ہیں،دعا ہے کہ خداوند تعالیٰ ہمیں بھی حلقئہ سعادت منداں میںشامل کرے۔
(۲)دوسر ی وجہ کہ جس کے باعث علم مال سے افضل ہے یہ ہے کہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ ختم ہوجاتا ہے لیکن اس کے بر عکس علم ایسا خزانہ ہے کہ اس کو جس قدر خرچ کیا جائے،اسی قدر بڑھتا ہے،اس میں اسی قدر اضافہ ہوتا ہے،
(۳)تیسرا سبب یہ ہے کہ مالدار کو مال کی چوکیداری کرنا پڑتی ہے تا کہ چوروں،ڈکوئوں سے محفوظ رہے لیکن بعض اوقات ہزاروں چوکیداریوں کے باوجود مال چوری ہو جاتا ہے،لیکن مال کے بر عکس علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کو دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا ماہرچور ڈاکو نہیں چراسکتا ،اس لیے اس کی حفاظت ضروری نہیں،بلکہ علم تو خود صاحب علم کی حفاظت کرتا ہے او اسے جاہل ہونے سے بچاتا ہے،اخلاقی اور عقلی لیڑوں سے بھی اس کی حفاظت کرتا ہے،
(۴)مال کسی کا وفادار اور دوست نہیں ہے،یہ ڈھلتی چھائوں ہے آج میرے پاس تو کل کسی دوسرے کے پاس اور پرسوں کسی اور مقام پر ہو گا،علاوہ ازیں مرنے کے بعد تو انسان قبر کا باسی ہوتا ہے اور اس کا مال اس کے عزیز واقارب اور ورثاء کے قبضے میں چلا جاتا ہے،مگر علم اصلی اور وفادار دوست ہے جو کسی حال میں بے وفائی کا ارتکاب نہیں کرتا،بلکہ مرنے کے بعد بھی قبر میں ساتھ جاتا ہے اور ساتھ نبھاتا ہے
(۵)مال ایک ایسی جنس شے ہے اس کا حصول ہر شخص (صاحب ایمان اور کافر)کرسکتا ہے
(۶)جب میزان عمل قائم ہوگا تو پل صراط پر گزرتے وقت مال کمزروی اور ضغف کا باعث بنے گا جب کہ علم طاقت بخشے گا،یعنی عمل کردہ علم پل صراط پار کرادے گا اور مال پل صراط سے گرادے گا
(۷)مال دار کی طرف فقط چند لوگ محتاج ہوتے ہیں جو غریب ہوتے ہیں،مگر عالم کی طرف سب لوگ محتاج ہوتے ہیں،غریب ہوں کہ امیر،بے علم ہوں یا عالم۔
انسان کو انسان بناتا ہے علم
حیوان سے بدتر ہے جو ہے بے علم
علم علامت ہے زندگی کی
مردوں کو زندہ بناتا ہے علم
٭٭٭
0 Comments