کافر اور مؤمن کی محبت کا موازنہ: Kafir Aur Momin Ki Mohabbat Ka Mawazina


کافر اور مؤمن کی محبت کا موازنہ:


    محبت کرنے والوں کی کئی ا قسام ہیں لیکن محبِّینِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہی خالص و مخلص لوگ ہیں۔      
    اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ محبت نشان ہے:

(2) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ؕ

ترجمۂ کنزالایمان:اور ایمان والوں کواللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔(پ2،البقرۃ:165)
    اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں: ''اَشَدُّ''سے مراد پختگی اور ہمیشگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین جب کسی بت کی پوجا کرتے اورپھر کوئی اس سے اچھی چیز دیکھ لیتے تو اس بت کو چھوڑکر اس سے اچھی چیزکی پوجا پاٹ شروع کردیتے(یعنی کافر اپنی محبتیں بدلتے رہتے تھے جبکہ مؤمن صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرتے ہیں)۔''

(التفسیر الکبیر للامام فخر الدین الرازی، سورۃالبقرۃ، تحت الآیۃ:۱۶۵، ج۲، ص۱۷۸)

حضرت سیِّدُناعکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی تفسیریوں کرتے ہیں:اہلِ ایمان آخرت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بہت محبت کریں گے۔
    حضرت سیِّدُناقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''بے شک کافر مصیبت کے وقت اپنے (باطل) معبود سے منہ موڑ لیتا ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ ہوجا تاہے۔'

  (التفسیرالبغوی،سورۃالبقرۃ،تحت الآیۃ۱۶۵،ج۱،ص۹۴)

    چنانچہ، اس بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:

(3) فَاِذَا رَکِبُوۡا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬

ترجمۂ کنزالایمان:پھر جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں اللہ کو پکارتے ہیں ایک اسی پر عقیدہ لاکر ۔(پ21،العنکبوت:65)
    مزید ارشاد فرماتاہے:

(4) وَ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنۡ تَدْعُوۡنَ اِلَّاۤ اِیَّاہُ ۚ

ترجمۂ کنزالایمان:اور جب تمہیں دریا میں مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے سوا جنہیں پُوجتے ہیں سب گم ہو جاتے ہیں۔(پ15،بنی اسرائیل:67)
    مؤمن مصیبت وخوشحالی اورآزمائش وغیرہ کسی حال میں بھی بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ سے اعراض نہیں کرتااوراس پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا۔''حضرت سیِّدُناحسن رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''کافر واسطے کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے بتوں کے متعلق کہتے تھے، جسے اللہ عَزَّوَجَل قرآنِ مبین میں یوں بیان فرماتا ہے:

(5) مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللہِ زُلْفٰی ؕ

ترجمۂ کنزالایمان:کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کے لئے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے پاس نزدیک کر دیں۔ (پ23،الزمر :3)
    اوروہ یہ بھی کہتے تھے :

(6) ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللہِ ؕ

ترجمۂ کنزالایمان:یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں۔(پ11،یونس :18)
    اس کے برعکس اہلِ ایمان کسی واسطے کے بغیراللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہیں،جسےاللہ عَزَّوَجَلَّ یوں بیان فرماتا ہے:

(7) وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ؕ

ترجمۂ کنزالایمان: اور ایمان والوں کواللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔(پ2،البقرۃ:165)
    منقول ہے، ''کیونکہ مشرکین اپنے بہت سے (باطل) معبودوں سے محبت کرتے ہیں اس لئے ان کی محبت مشترک ہے جبکہ مؤمنین کی محبت غیر مشترک ہے کیونکہ وہ صرف خدا ئے واحد عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرتے ہیں۔''
    اورایک قول یہ ہے کہ'' کفار کے معبودان کے اپنے ہی بنائے ہوتے ہیں جبکہ مؤمنین اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کو ہر چیز کا بنانے والا اور ہر مخلوق کاخالق مانتے ہیں۔''
    اوربعض نے کہا کہ''کافربتوں کو دیکھ کر ان سے محبت کرتے ہیں جبکہ مسلمان بن دیکھے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرتے
ہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان بھی بن دیکھے لاتے ہیں۔اسی وجہ سے ان سے آخرت میں دیدارِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ فرمایاگیا۔''

    ایک قول یہ بھی ہے کہ '' اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ''وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ؕ ''  اس لئے فرمایاکیونکہ پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایمان والوں سے محبت کی پھر مؤمنین نے اس سے محبت کی اور جس کی محبت کی گواہی معبودِ برحق عَزَّوَجَلَّ دے یقینا اس کی محبت زیادہ کا مل اور زیادہ صحیح ہے۔''

  (تفسیرالبغوی،سورۃالبقرۃ،تحت الآیۃ۱۶۵،ج۱،ص۹۵)

    چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کی شان میں ارشاد فرماتا ہے:

(8) یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ

ترجمۂ  کنزالایمان:کہ وہ اللہ کے پیارے اوراللہ ان کا پیارا۔(پ6،المائدۃ :54)
    حضرت سیِّدُناسفیان ثوری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمانِ عالیشان:

''رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ

ترجمۂ کنز الایمان: اے رب ہمارے! اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں سہار (برداشت)نہ ہو۔(پ3، البقرۃ : 286)'' کی تفسیر میں فرماتے ہیں: '' یہاں بوجھ سے مراد محبت ہے۔''

    (تفسیرالبغوی،سورۃالبقرۃ،تحت الآیۃ۲۸۶،ج۱،ص۲0۹''سفیان''بدلہ''ابراھیم'')

    حضرت سیِّدُنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں،حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن،جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حضرت داؤدعلیہ الصلٰوۃ والسلام یوں دعا کیا کرتے: ''اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبْلِغُنِیْ حُبَّکَ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَآءِ الْبَارِدِ یعنی اے میرے اللہ عَزَّوَجَلَّ! میں تجھ سے تیری محبت اور اس کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی محبت کا سوالی ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ! مجھے اپنی جان،گھر والوں اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ اپنی محبت عطا فرما۔''(آمین)

(جامع التر مذی، کتاب الدعوات، باب دعاء داؤدعلیہ السلام۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۳۴۹0،ص۱۱ ۲0)

    حضرت سیِّدُنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باذنِ پروردگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ محبت نشان ہے: '' جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے محبت کرتاہے اُسے چاہیے کہ وہ مجھ سے محبت کرے اورجو مجھ سے محبت کرتاہے اُسے چاہیے کہ وہ میرے صحابہ سے محبت کرے اور جومیرے صحابہ سے محبت کرتاہے اُسے چاہیےکہ وہ قرآن پاک سے محبت کرے اورجو قرآن پاک سے محبت کرتاہے اسے چاہیے کہ وہ مساجد سے محبت کرے۔ کیونکہ یہ ایسی عمارتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بنانے اور پاک رکھنے کا حکم دیا اور ان میں برکت رکھی۔ پس یہ خیرو برکت والی جگہیں ہیں اور ان کے رہنے والے بھی خیروبرکت میں ہیں۔یہ پسندیدہ جگہیں ہیں اور ان میں رہنے والے بھی پسندیدہ ہیں۔ یہ لوگ اپنی نمازوں میں ہوتے ہیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کی ضرورت پوری فرماتا ہے ۔یہ مساجد میں ہوتے ہیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کو اپنے مقاصد میں کامیابی عطا فرماتاہے۔''

 (المجروحین لابن حبان، الرقم۱۲۷۱،ابومعمر،ج۲،ص۵۱0،بتغیرٍ)

    حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں،شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو
نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا کافرمانِ عالیشان ہے: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے سے محبت فرماتاہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بلاتا ہے۔'' اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے: '' زمین و آسمان والوں میں اعلان کر دے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فلاں بندے سے محبت فرماتاہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔'' پھر اس کی محبت زمین میں اُتاری جاتی ہے۔وہ پانی میں پڑتی ہے تواسے نیک و بد سبھی پیتے ہیں تووہ بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی بندے کو ناپسند کرتا ہے تو حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کو اس کے برعکس حکم فرماتاہے پس نیک و بد سبھی اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔''

(صحیح البخاری،کتاب التوحید،باب کلام الرب تعالی۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۷۴۸۵، ص۶۲۴۔ صحیح مسلم،کتاب البر،باب اذا احب اللہ تعالٰی عبدًا۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۶۳۷، ص۱۱۳۷، مفھومًا)

Post a Comment

0 Comments