خوفناک صورت: Khowfnaak Surat

خوفناک صورت:


    منقول ہے :''حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیل اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے ملک الموت علیہ السلام سے فرمایا: ''کیاتم مجھے وہ صورت دکھا سکتے ہو جس میں تشریف لا کر نافرمانوں کی روح قبض کرتے ہو؟''حضرتِ سیدنا عزرائیل علیہ السلام نے کہا: ''آپ علیہ السلام سہہ نہیں سکیں گے۔''حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے کہا:''کیوں نہیں (میں دیکھ لوں گا)۔'' انہوں نے کہا:'' آپ مجھ سے الگ ہو جائیے۔''حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام الگ ہوگئے۔ پھر ادھر متوجہ ہوئے تو ملاحظہ کیا، کالے کپڑوں میں ملبوس ایک سیاہ فام شخص ہے جس کے بال کھڑے ہیں ،بدبوآرہی ہے، اس کے منہ اور نتھنوں سے آگ اور دُھواں نکل رہا ہے۔(یہ دیکھ کر)حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو ملک الموت علیہ  السلام اپنی اصل حالت پرآچکے تھے۔آپ علیہ السلام نے فرمایا:''اے ملک الموت(علیہ السلام)! موت کے وقت صرف تمہاری صورت دیکھنا ہی فاسق وفاجر کے لئے بہت بڑاعذاب ہے۔''

 (احیاء علوم الدین،کتاب الذکروالموت ومابعدہا،باب ثالث فی سکرات الموت۔۔۔۔۔۔ الخ،ج۵،ص۲۱0)

    حضرتِ سیِّدُناابراہیم خلیل اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے کچھ لوگوں کو میت پر روتے ہوئے دیکھ کر ارشاد فرمایا: ''اگرتم میت پر رونے کی بجائے خود اپنی جانوں پر روتے تو تمہارے لئے بہتر تھا کہ میت کو توتین ہولناک مراحل سے نجات مل گئی ہے: (۱)۔۔۔۔۔۔ملک الموت کو اس نے دیکھ لیا(۲)۔۔۔۔۔۔موت کا ذائقہ بھی اس نے چکھ لیااور(۳)۔۔۔۔۔۔اسے (برے )خاتمے کا خوف بھی نہ رہا۔'' لہٰذا عقل مند انسان کو چاہے کہ اپنی جان پر روئے کہ یہی اس کے زیادہ لائق ہے اور اسے اس بات سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہے کہ موت اس کی تلاش میں اس کے پیچھے پیچھے ہے۔
    اے میرے اسلامی بھائیو! مو ت جیسا واعظ و مبلغ کوئی نہیں،مگر تم اس سے عبرت و نصیحت حاصل نہیں کرتے۔وہ تمہاری تلاش میں ہے اور تم اس سے بے خبر۔کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ تمہیں دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے؟(سنو!) موت کا جام ہر ایک کو پینا ہے۔ توشہ ساتھ لے لو، قافلہ چلنے کو تیارہے۔ دُنیا کی رنگینیوں سے دھوکا نہ کھانا کہ یہ تو عارضی ہیں۔ جھوٹی اُمیدوں سے بچو کہ ان کا زہر زہرِ قاتل ہے۔کب تک غفلت وجہالت کی چادر اوڑھے رہوگے ؟ کب تک دنیوی مال اور اہل وعیال کے دھوکے میں رہو گے؟  کب تک اس حقیر وذلیل دُنیاکو آخرت پرترجیح دیتے رہوگے؟ حالانکہ یہ تمہاری ہلاکت وبربادی کے لئے کوشاں ہے۔ کب تک
اپنے سے پہلے جانے والوں کے پاس پہنچنے کو بھولے رہو گے؟  کب تک کثرتِ ملامت وعتاب تم میں بے اثر رہے گی؟  کب تک اپنا سارا مال واسباب چھوڑ کر کُوچ کرنے کو یاد نہیں کروگے؟آخر کب تک تمہیں نصیحت سمجھ میں نہیں ائے گی ؟ بے شک تجھے کہاگیا، '' جاگ جا او بے خبر! جاگ جا۔تیرے جیسے کتنوں کے ساتھ خواہشات کھیلیں ۔'' اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:

 (2) اَلْہٰىکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿1﴾حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ؕ﴿2﴾

ترجمۂ کنز الایمان:تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے یہاں تک کہ تم نے قبروں کامنہ دیکھا۔ (پ30،التکاثر:1،2 )
    یعنی مال واولاد کی زیادہ طلبی نے تمہیں موت کی تیاری سے غافل رکھا۔ حضور نبئ رحمت، شفیعِ اُمَّت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' عذابِ قبر سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ طلب کرو۔''

(3) کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوۡنَ ۙ﴿3﴾

ترجمۂ کنزالایمان:ہاں ہاں جلد جان جاؤ گے۔(پ30،التکاثر:3)
    یعنی موت کی سختیوں اور ہولناکیوں کے وقت تم جان لو گے۔

(4) ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوۡنَ ؕ﴿4﴾

ترجمۂ کنزالایمان:پھرہاں ہاں جلد جان جاؤ گے۔(پ30،التکاثر:3)
    یعنی موت کے بعد قبر میں منکرنکیر کو دیکھ کرتم جان لو گے۔
    حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ''جب کسی بندۂ مؤمن کو قبر میں رکھاجاتاہے تواس کی قبرستر گز لمبی اور ستر گز چوڑی کردی جاتی ہے۔ اس پرخوشبودار ٹھنڈی ہوائیں چلائی جاتی ہیں۔ اسے ریشمی لباس پہنا یا جاتا ہے۔پھر اگر اس کے نامۂ اعمال میں کچھ تلاوتِ قرآن بھی ہو تواس کا نور ہی اسے قبر میں کافی ہوتا ہے۔ اور اس کی مثال دلہن کی سی ہے کہ وہ سوتی ہے تو اس کا محبوب ترین شخص ہی اسے بیدار کرتا ہے پھر وہ اس طرح بیدار ہوتی ہے گویا ابھی اس کی نیند باقی ہے۔ اورفاجر وفاسق اور کافر کی قبر کو اس قدر تنگ کر دیا جاتاہے کہ اس کی پسلیاں ٹوٹ پھوٹ کر ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔اس پر اونٹ کی گردن کی مانند موٹے موٹے سانپ چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ وہ ان کا گوشت کھاتے ہیں یہاں تک کہ ہڈیوں پر ذرہ برابر گوشت بھی نہیں چھوڑتے۔پھرگونگے، بہرے اوراندھے فرشتوں کو لوہے کے گرز دے کر اس پرمسلّط کردیا جاتا ہے۔تو وہ ان گرزوں سے اسے مارتے ہیں، انہیں سنائی نہیں دیتا کہ اس کی چیخ وپکار سن کر ترس کھائیں، نہ انہیں دکھائی دیتا ہے کہ اس کی حالتِ زار دیکھ کر اس پر نرمی برتیں۔ اسے صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔''(الامان والحفیظ)

(مصنف عبدالرزاق،کتاب الجنائز،باب الصبرو البکاء والنیاحۃ، الحدیث۶۷۳۱،ج۳،ص۳۷۴،بتغیرٍ)

(یااللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں قبروآخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرما۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)

Post a Comment

0 Comments