ہر عضو موت کا شکار: Har Cheez Mout Ka Shikaar

ہر عضو موت کا شکار:


    کہتے ہیں،موت کی تکلیف وہی جانتاہے جو اس کا شکار ہوتااور اس کی تکالیف سے دوچار ہوتا ہے۔موت کی تکلیف تلوار کے وار سے زیادہ دشوار ہے۔ اس کا درد قینچیوں سے کاٹے جانے اور آروں سے چیرے جانے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس لئے کہ تلوار سے کٹ جانے کی تکلیف بدن میں صرف اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس میں قوت(یعنی حیات)باقی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے زخمی چِلاّتا اور فریاد کرتاہے جبکہ موت کا معاملہ تو اس کے برعکس ہے کیونکہ مردے کے دل پر طاری ہونے والے کرب واضطراب کی شدت اس کی آوازکو ختم کر دیتی اور قوت کو کمزورکر دیتی ہے ۔موت جسم کے ہر عضو کو اس طرح بے کاروبے زور کردیتی ہے کہ اس سے قوتِ فریاد بھی چھین لیتی ہے۔عقل کومدہوش اور زبان کو خاموش کر دیتی ہے۔ ساتھ ہی دیگر اعضاء کی طاقت کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے ۔مردہ چیخ وپکار کرکے راحت چاہتا ہے لیکن کرے کیا؟قدرت نہیں۔ اگرچہ نزعِ روح کے وقت سننے کی قوت باقی رہتی ہے۔روح نکلتے وقت سینے اور گلے سے گائے، بیل کی مثل آوازیں نکلتی ہیں۔چہرے کا رنگ سیاہی مائل خاکی رنگ میں بدل جاتاہے۔آنکھوں کے سیاہ ڈھیلے پپوٹوں کی طرف بلند ہوجاتے ہیں۔خصیے (یعنی فوطے) بھی اپنی جگہ سے اٹھ جاتے ہیں۔ انگلیاں زرد پڑ جاتی ہیں۔ہر عضو جدا جدا موت کا شکار ہوتاہے۔سب سے پہلے پاؤں پھر پنڈلیاں پھر رانیں موت کی زد میں آ جاتی ہیں۔ یوں ہر عضو باربارشدت وسختی اورکرب واضطراب سے دوچارہوتاہے۔ بالآخر جب روح گلے تک پہنچتی ہے تو دنیا اور اہلِ دنیا نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور حسرت وندامت اسے گھیر لیتے ہیں۔
    مروی ہے :''اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کسی مریض کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ''بے شک میں اس کی تکلیف جانتا ہوں، اس کی ہر رگ،جدا جدا موت کی اذیت کا شکار ہے۔''

 (البحر الزخاربمسند البزار،مسندسلمان الفارسی،الحدیث۲۵۱۲،ج۶،ص۴۸0)

    مروی ہے، سرکارِابد قرار، شافعِ روزِ شمار، محبوبِ غفّار عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس بوقتِ وصال پانی کا ایک پیالہ تھا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنا دستِ اقدس اس میں ڈالتے پھراسے چہرۂ انور پر پھیرتے اور فرماتے:''اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں، بے شک موت کی سختیا ں بہت ہیں۔''

 (صحیح البخاری،کتاب الغازی،باب مرض النبی ووفاتہ،الحدیث ۴۴۴۹،ص۳۶۵)
    ایک روایت میں ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم یہ دعافرماتے:''اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!مجھ پر موت کی سختیاں آسان فر ما ۔''

 (احیاء علوم الدین،کتاب الذکر والموت ومابعدہا،باب ثالث فی سکرات الموت۔۔۔۔۔۔الخ ،ج ۵، ص۲۱0)

    ایک روایت میں سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی دعا کے الفاظ یہ ہیں : ''موت کی سختیوں میں میری مدد فرما۔''

 (جامع الترمذی،ابواب الجنائز،باب ماجاء فی التشدیدعندالموت،الحدیث ۹۷۸،ص۱۷۴۴)

    حضرتِ سیِّدَتُنافاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی:''اے میرے باباجان!ہائے! آپ کی تکلیف پر مجھے کتنا غم ہوا۔'' تو ارشاد فرمایا: '' آج کے بعد تمہارے باپ پر کوئی سختی نہ ہو گی۔ ''

 (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب التاریخ، باب وفاتہ، الحدیث ۶۵۸۸،ج۸، ص۲۱۴۔سنن ابن ماجۃ، ابواب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ ، الحدیث:۱۶۲۹، ص۲۵۷۴)

    امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم جہاد کی ترغیب دلاتے اور فرماتے : ''اگر تم شہید نہ ہوگے تومرجاؤگے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!تلوار کی ہزار ضربیں بھی میرے نزدیک بستر پر مرنے سے آسان ہیں۔''

(موسوعۃ لابن ابی الدنیا،کتاب الذکرالموت،الخوف من اللہ تعالٰی،الحدیث۱۸۷،ج۵، ص ۴۵۱)

    حضرتِ سیِّدُناشداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''اہلِ ایمان پر موت ددنوں جہان کی تمام تر ہولناکیوں سے زیادہ دردناک ہے۔ موت کی تکالیف قینچیوں سے کاٹے جانے، آروں سے چیرے جانے اورہنڈیوں میں ابالے جانے سے سخت تر ہیں۔اگر مرنے والا اٹھ کر دنیا والوں کو موت کی تکالیف سے آگاہ کردے تو ان کا جینا دوبھرہوجائے اور نیندکا سب مزہ جاتا رہے۔''

 (الموسوعۃ لابن ابی الدنیا،کتاب الذکر الموت،الخوف من اللہ تعالٰی،الحدیث۱۷0،ج۵، ص ۴۴۶)

    منقول ہے:''حضرتِ سیِّدُناموسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کے انتقال کے بعدجب ان کی روح اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تو خدائے رحمن عَزَّوَجَلَّ نے استفسار فرمایا: ''اے موسیٰ ! تم نے موت کو کیسا پایا؟''عرض کی : '' میں نے خود کو چڑیاکی مانند پایا۔ جب اس کو زندہ کڑاہی میں بھونا جائے تونہ وہ مرے کہ راحت پائے اور نہ نجات پائے کہ اُڑ جائے۔''

 (احیاء علوم الدین،کتاب الذکروالموت ومابعدھا،باب ثالث فی سکرات الموت۔۔۔۔۔۔ الخ ،ج۵،ص۲۱0)

    دوسری روایت میں ہے :''میں نے خود کوزندہ بکری کی مثل پایا جس کی کھال اُتار دی جائے ۔''

 (احیاء علوم الدین،کتاب الذکروالموت ومابعدھا،باب ثالث فی سکرات الموت۔۔۔۔۔۔ الخ ،ج۵،ص۲۱0)

    اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالیشان ہے:

 (1) وَ جَآءَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنْہُ تَحِیۡدُ ﴿19﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور آئی موت کی سختی حق کے ساتھ، یہ ہے جس سے تو بھاگتاتھا۔ (پ26،قۤ:19)
    ''بِالْحَقِّ''سے مراد معاملۂ آخرت کی حقیقت ہے کہ جب مرنے والاآگاہ ہوگا اور بچشمِ سر موت کو دیکھے گا۔ اور ملکُ الموت کا مشاہدہ اور اسے دیکھ کر دل میں پیدا ہونے والا خوف اور گھبراہٹ ایک ایسا امر ہے جس کی حقیقت بیان کرنے سے ہر
بیان کرنے والے کی عبارت قاصر ہے اور اس کی ہولناکی کا احاطہ کرنے سے ہروضاحت کرنے والا عاجز ہے۔ اس کی حقیقت وہی جانتا ہے جو اس مرحلے سے گزر چکا ہو۔

Post a Comment

0 Comments