عظیم خادمہ :Azeem Khadimaa

عظیم خادمہ :


    حضرت سیِّدُناعبداللہ بن حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''میرے پاس ایک عجمی خادمہ تھی۔ایک رات وہ محو ِ آرام تھی پھر
میں نے دیکھا کہ اس نے اُٹھ کر وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑی ہو گئی۔ جب نماز سے فارغ ہوئی تو سر بسجود ہو گئی اور عر ض کرنے لگی:''اے میرے مولیٰ! اس محبت کی قسم جو تجھے مجھ سے ہے! میر ی بخشش فرما دے۔''میں نے کہا:''اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ پر رحم کرے! یوں نہ کہہ، بلکہ یوں کہہ: اس محبت کی قسم جو مجھے تجھ سے ہے! کیونکہ ہو سکتاہے اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ سے محبت نہ کرتا ہو۔'' کہنے لگی: '' اے میرے آقا! اگر اس کو مجھ سے محبت نہ ہوتی تو وہ آپ کو سُلا کر مجھے اپنے حضور کھڑا نہ کرتا۔اس کی محبت ہے کہ مجھے مشرکین کے ملک سے نکالا اور مؤمنین میں داخل فرما دیا۔'' یہ سن کر میں نے کہا:''جا، میں نے تجھے رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے آزاد کیا۔'' تو وہ کہنے لگی : ''اے میرے آقا! آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا،پہلے میرے لئے دو اجر تھے ،اب صرف ایک رہ گیا۔'' پھراس کی زوردار چیخ بلند ہوئی اور کہنے لگی: ''یہ تو میرے چھوٹے مالک کا آزاد کرنا ہے، حقیقی مالک عَزَّوَجَلَّ کا آزاد کرنا کیسا ہو گا۔''پھر وہ نیچے گری اوراس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
    اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! یہ محبین کی صفات ہیں جن کے دِل ربُّ العالمین عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں معلَّق (یعنی اَٹکے) رہتے ہیں۔ کسی محب سے پوچھا گیا: ''تو نے محبت کو کیسا پایا؟'' جواب دیا:''میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے ساحل پر کھڑا ہوا جس کادوسرا کنارہ نہیں ملتا،تو مجھے اس ذات نے قرب بخشا جو فرماتا ہے :

''مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّیْ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ ذِرَاعًا یعنی جومجھ سے ایک بالشت قریب ہو، میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں۔'' (جامع الترمذی ،کتاب الدعوات ،باب فی حسن الظن باللہ ،الحدیث۳۶0۳،ص۲0۲۲) پس میں اس کے حکم سے سوارئ محبت پرسوار ہو گیا تو روح نے پکارنے والے کو جواب دیا:

(10) بِسْمِ اللہِ مَجْرٖؔؔىھَا وَمُرْسٰىہَا ؕ

ترجمۂ کنزالایمان:اللہ کے نام پر اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا۔(۱)ط
    جب میں بحرِ محبت کے درمیان اتھاہ گہرائیوں میں پہنچا تو میں اس کے راستوں میں پریشان ہوگیا۔ مجھ پر یہی کیفیت طاری رہی یہاں تک کہ محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ نے مجھے ''یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ،  یعنی وہ اللہ کے پیارے اوراللہ ان کا پیارا۔''کے پاکیزہ اجتماع میں پہنچا دیا۔اور اب میں مقامِ'' بقا ''اور مقامِ ''فنا ''کے درمیان ہوں یہاں تک کہ فناکو پالوں۔''


1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ''اس میں تعلیم ہے کہ بندے کو چااللہ اے جب کوئی کام کرنا چاہے تو اس کو بسم اللہ پڑھ کر شروع کرے تاکہ اس کام میں برکت ہو اور وہ سبب فلاح ہو۔ضحاک نے کہا کہ '' جب حضرت نوح علیہ السلام چاہتے تھے کہ کشتی چلے تو بسم اللہ فرماتے تھے کشتی چلنے لگتی تھی اور جب چاہتے تھے کہ ٹھہر جائے بسم اللہ فرماتے تھے ٹھہر جاتی تھی۔''

Post a Comment

0 Comments