ابنِ آدم کی حرص: Ibn-e-Aadam Ki Hirs

ابنِ آدم کی حرص:


     شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعث ِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے: ''اگر ابنِ آدم کے پاس سونے کی دووادیاں بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کریگا اورابنِ آدم کاپیٹ قبر کی مِٹی ہی بھر سکتی ہے۔''

   (صحیح مسلم ،کتاب الزکاۃ ، باب لو ان لابن آدم۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۱0۴۸،ص۸۴۲)

    حضرتِ سیِّدُناابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:''رسولِ اکرم،نورِ مجسّم ، نبئ محتشم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے میرے جسم کے کسی حصہ کو پکڑ کر ارشاد فرمایا:''دنیا میں ایک اجنبی اور مسافر کی طرح رہ اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کر۔''

 (سنن ابن ماجۃ،ابواب الزھد،باب مثل الدنیا،الحدیث۴۱۱۴،ص۲۷۲۷)

    اے گناہوں کے حریص! اے موت کے جھٹکوں سے غافل! (سُن!)یقینا موت اچانک آجائے گی۔ مال و گناہ کی طمع کسی عقل مند کا کام نہیں۔تو  گناہوں میں جلدی کرتا اور توبہ کو آئندہ سال تک مؤخر کرتا ہے۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ غنی کا (قرض کی ادائیگی کے معاملے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے جوانی، صحت اور فراغت کی دولت سے غنی کر دیا پھر بھی تو توبہ میں ٹالَ َمَٹول کرتاہے۔ دُنیا پر بادشاہت کرنے والے ،بڑے بڑے جابر اور لیڈر کہاں چلے گئے؟ بندوں پر بڑائی چاہنے والوں کو کیا ہو گیا؟ کہا ں ہیں قاتل اورحملہ کرنے والے؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !موت کے تیران سب میں پیوست ہو گئے ،وہ اب قتل گاہوں میں پڑے ہیں۔اور موت نے اُنہیں فرش اور قالین کے بعد پچھاڑ کر پتھر کی سِل اور چٹان کے درمیان رکھ دیا۔
    اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:

وَ جَآءَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنْہُ تَحِیۡدُ ﴿19﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اور آئی موت کی سختی حق کے ساتھ، یہ ہے جس سے تو بھاگتاتھا۔(پ26،قۤ:19)
    یعنی موت کی سختیوں کا سامنا، ملک الموت علیہ السلام کو دیکھنا اور بندے پر اس کاجنت یا دوزخ کا ٹھکانہ ظاہر ہونا زبردست امور ہیں اور یہ سکرات موت کے وقت ظاہر ہوں گے اور یہ حق ہے، اس کو حضور نبئ مکرّم، رسولِ محتشم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ایمان بالغیب میں بیان فرمایا ہے۔ پھر اس کے بعد منکر نکیر کے سوالات کامرحلہ ہے کہ میت کوقبر میں اُتارے جانے کے بعد سب سے پہلے اسی سے دوچار ہونا پڑتاہے۔ اور موت کی سختیاں بیان ہوچکی ہیں اور یہ ہر شخص پراس کے اعمال کے مطابق ہوں گی۔
    ان کو سکرات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہوش اڑا دیتی اور ذہن کو غائب کر دیتی ہيں جیسے مدہوش نشے کی حالت میں ہوتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ آدمی پر اس کے اچھے برے اعمال اور ان کی جزا موت کے وقت ظاہر ہوگی۔ غیبت کرنے والے کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جائے گا، غیبت سننے والے کے کانوں میں جہنم کی آگ کی سیخیں پروئی جائیں گی اور ظالم کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہرمظلوم کے پاس پہنچ جائے گا۔ حرام خور کوجہنم کا کانٹے دار درخت، زقوم کھانے کو دیا جائے گا۔ اسی طرح دیگر افعال کی جزا وسزا دی جائے گی۔ ان سب کا ظہور موت کی سختیوں کے وقت ہوگا اور میت کو یکے بعد دیگرے ان سے گزرنا ہو گا، اور آخر میں اس کی روح قبض کی جائے گی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتاہے:

(5) ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنْہُ تَحِیۡدُ ﴿19﴾

ترجمۂ کنزالایمان:یہ ہے جس سے تو بھا گتاتھا۔(پ26،قۤ:19)
    یعنی یہ وہ موت ہے لمبی اُمیدوں اور دنیا میں زندہ رہنے کی حرص کے سبب جس سے تو بھاگتا تھا۔

Post a Comment

0 Comments